حضرت نعمان بن حمید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اپنے ماموں کے ساتھ مدائن شہر میں حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا وہ کھجور کے پتوں سے کچھ بنا رہے تھے۔میں نے ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں ایک درہم کے کھجور کے پتے خریدتا ہوں پھر ان کا کچھ بناکر تین درہم میں بیچ دیتا ہوں اور پھر ایک درہم کے دوبارہ پتے خریدتا ہوں اور ایک درہم اپنے اہل و عیال پر خرچ کر دیتا ہوں اور ایک درہم صدقہ کرتے دیتا ہوں۔
دین بیزار، ہوس کے پجاری اور لالچی حکمرانوں نے ملک کو اس نہج پر لاکھڑا کیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کو جتنے بھی سیاستدان آج تک میسر آئے وہ دین سے کیا مخلص ہوتے وطن سے بھی بےوفا اور دغاباز نکلے۔ صرف اپنے بینک بیلنس اور مراعات کی فکر میں غرق رہے۔ اپنے غیر دانشمندانہ اور غلط اقدامات سے پاکستان کو ایک ایسی دلدل میں لاپھنسایا کہ جس سے نکلنا اب ان میں سے کسی کے بس میں نہیں۔
ان بچوں کو کفر و شرک سے نفرت، توحید سے محبت، اس پر فخر، اسلامی نسبت اور مسلمان ہونے اور کہلانے پر مسرت و عزت کا احساس، دین کی حمیت و غیرت، خدا کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق، اور شیدئیت کی حد تک محبت، گناہوں سے نفرت اور گھن، دنیاوی ترقی ہی کو زندگی کا مقصد اور کامیابی اور عروج کی دلیل سمجھنے سے حفاظت، راست گوئی کی عادت، خدمت و ایثار کا شوق، خدمت خلق اور وطن دوستی کا جذبہ پیدا کرنا بھی ان کی ذمہ داری اور انہیں کے کرنے کا کام ہے، اور اگر یہ کام بچپن میں اور گھروں کے اندر نہیں ہوا، تو دنیا کی بڑی سے بڑی دانش گاہ اور سرکاری یا علمی پیمانہ پر کوئی تربیت گاہ نہیں کر سکتی اور اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
لہذا بطور مسلمان ہمیں اپنے ذہنوں میں یہ عقیدہ اچھی طرح راسخ کرنا ہو گا کہ مغرب کی دھو کے باز (دجالی) دنیا میں رہنے اور ان کی تہذیب واقدر کو اختیار کرنے والا کافر چاہے کتنے ہی عیش میں ہو ہمارے لیے وہ تباہ حال ہے، عبرت کا نشان ہے اور قابل ترس حالت میں جی رہا ہے اس لیے کہ وہ عبدالدنیا ہے اور شر البرية بد ترین خلائق میں سے ہے، اور ایسے میں یہ کبھی فلاح نہیں پائے گا اور سر تا سر نقصان میں ہے:
?خدایه څه شوه هغه ښکلي ښکلي خلك? <br>?په ظاهر په باطن سپين سپېڅلي خلك?