کتاب: حیاۃ الصحابہ ؓ
نبی کریم ﷺ کا صحابہ کرام ؓ کو دعوت دینا
عنوان: حضور ﷺ کا حضرت ابو بکر ؓ کو دعوت دینا

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : حضرت ابوبکر ؓ حضور ﷺ کے زمانۂ جاہلیت کے دوست تھے۔ ایک دن حضور ﷺ کی ملاقات کے ارادے سے گھر سے نکلے۔ آپ سے ملاقات ہوئی تو عرض کیا: اے ابو القاسم! (یہ حضور ﷺ کی کنیت ہے) کیا بات ہے؟ آپ اپنی قوم کی مجلسوں میں نظر نہیں آتے ہیں اور لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ اُن کے آباء واَجداد وغیرہ کے عیوب بیان کرتے ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں اور تم کو اللہ کی دعوت دیتا ہوں ۔ جوں ہی حضور ﷺ نے اپنی بات پوری فرمائی حضرت ابو بکر فوراً مسلمان ہوگئے۔ حضور ﷺ حضرت ابو بکر کے اسلام لانے سے اس قدر خوشی کے ساتھ واپس ہوئے کہ کوئی بھی مکہ کی ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان جن کواَخْشَبَین کہتے ہیں ، آپ سے زیادہ خوش نہ تھا ۔اور حضرت ابوبکر وہاں سے حضرت عثمان بن عفان اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ، حضرت زبیر بن العوّام اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس تشریف لے گئے، یہ حضرات بھی مسلمان ہوگئے ۔ دوسرے روز حضرت ابو بکرحضور ﷺ کے پاس حضرت عثمان بن مظعون، حضرت ابوعبیدہ بن الجرّاح، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد اور حضرت اَرقم بن ابوالارقم ؓ کو لے کر حاضر ہوئے اور یہ سب حضرات بھی مشرّف با اسلام ہوئے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی حضور ﷺ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے عرض کیا: اے محمد ! قریش جو کچھ کہہ رہے ہیں کیا وہ صحیح ہے کہ آپ نے ہمارے معبودوں کو چھوڑ دیا ہے اور آپ نے ہمیں بے وقوف بتایا ہے اور ہمارے آباء واَجداد پر کفر کا الزام لگایا ہے؟ آپ نے فرمایا :ہاں ، یہ سب صحیح ہے۔ بے شک میں اللہ کا رسول اور نبی ہوں ۔ اللہ نے مجھے اس لیے مبعوث فرمایا ہے تاکہ میں اس کا پیغام پہنچاؤں ۔ میں تمہیں یقین کے ساتھ اللہ کی دعوت دیتا ہوں ۔ اللہ کی قسم ! بے شک حق یہی ہے۔ اے ابوبکر ! میں تم کو ایک اللہ کی دعوت دیتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں ہے، اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ہمیشہ اس کی اِطاعت کرتے رہو۔اس کے بعد آپ نے قرآن پڑھ کر سنایا ۔ حضرت ابوبکر نے نہ اقرار کیا اور نہ انکار اور اسلام لے آئے اور بت پرستی چھوڑ دی اور اللہ کے شریکوں کو بھی چھوڑ دیا اور اسلام کی حقانیت کا اقرار کرلیا، اور ایمان و تصدیق کے ساتھ حضرت ابوبکر واپس ہوئے۔
دوسری روایت میں یہ آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جس کو بھی اسلام کی دعوت دی وہ ضرور ہچکچایا اور تردّد میں پڑا اور کچھ دیر سوچ کر اسلام کو قبول کیا، لیکن جب میں نے ابوبکر کو دعوت دی وہ نہ ہچکچائے اور نہ تردّد میں پڑے بلکہ فوراً اسلام لے آئے ۔
لہٰذا پہلی روایت میں جو یہ الفاظ گزرے ہیں کہ ابوبکر نے نہ اقرار کیا اور نہ انکار کیا، یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ ابنِ اسحاق وغیرہ بہت سے راویوں نے ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ بعثت سے پہلے ہی حضور ﷺ کے ہر وقت ساتھ رہنے والے تھے اور اچھی طرح سے جانتے تھے کہ حضور ﷺ سچے اور امانت دار ہیں ، اور عمدہ طبیعت اور بہترین اخلاق کے مالک ہیں ، کبھی مخلوق کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے ہیں تو اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹ بول سکتے ہیں ۔ لہٰذا جوں ہی حضور ﷺ نے ان سے یہ بات ذکر کی کہ اللہ نے ان کو رسول بنا کر بھیجا ہے، انھوں نے فوراً اس کی تصدیق کی، اور ذرہ برابر بھی نہ ہچکچائے اور نہ دیر کی۔
’’بخاری شریف‘‘ میں حضرت ابودرداء ؓ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر اورحضرت عمر ؓ میں کچھ جھگڑا ہوگیا تو حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ نے مجھے تمہارے پاس بھیجا تھا اس وقت تم سب نے کہا تھا کہ میں غلط کہتا ہوں ، لیکن ابوبکر نے کہا تھا کہ یہ صحیح کہتے ہیں اور جان و مال سے انھوں نے میری ہمدردی کی تھی، تو کیا تم لوگ میری وجہ سے میرے اس ساتھی کو چھوڑ دوگے؟ یہ جملہ حضور ﷺ نے دو دفعہ ارشاد فرمایا، اس کے بعد حضرت ابوبکرکو کسی نے کبھی کچھ تکلیف نہیں دی۔ حضور ﷺ کا یہ ارشاد اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ سب سے پہلے اسلام لائے ۔